حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کے 14 طلبہ پر مقدمات درج ۔ اردو اخبارات خاموش، مسلم قیادت بے حس

حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کے 14 طلبہ پر فروری میں ہوئے سی اے اے مخالف احتجاج کو لیکر کیس درج کیا گیا، رپورٹس کے مطابق 21 فروری کو مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں طلبہ نے مرکزی حکومت کے کالے قانون سی اے اے کے خلاف احتجاج کیا، جس پر تقریباً 8 ماہ بعد سائبرآباد پولیس نے طلبہ کے خلاف نوٹس جاری کیا. ان طلبہ نے حیدر آباد سنٹرل یونیورسٹی تا مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی تک پیدل ریالی نکالی بعد ازاں اردو یونیورسٹی میں احتجاج کیا۔ طلبہ کے مطابق انہیں ان مقدمات کا کوئی علم نہیں تھا،طلبہ کو  10 اکتوبر کو نوٹس ملی جس میں انہیں 6 اکتوبر کو پولیس اسٹیشن رپورٹ کرنے کی بات کہی گئی ا س پر طلبہ پریشان ہیں ، واضح رہے کہ لاک ڈاون کے پیش نظر تمام طلبہ اپنے اپنے گھروں کو جو کہ دیگر ریاستوں سے تعلق رکھتے ہیں واپس ہوگئے تھے، ایسے میں ان کا پولیس اسٹیشن کو رپورٹ کرنا انتہائی مشکل ہے، تاہم طلبہ پولیس سے مکمل تعاون کرنے تیار ہیں۔

ان مقدمات کے پیچھے کیا وجہ ہے اور کیا ذہنیت کام کررہی ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔  دہلی اور یوپی کے بعد اب حیدرآباد میں بھی اس قسم کے واقعات سامنے آرہے ہیں۔ ان مقامات پر طلبہ کو جنہوں نے سی اے اے مخالف احتجاج میں حصہ لیا تھا، انہیں دہلی فسادات کے نام پر یو اے پی اے جیسے سخت کو غیر انسانی قانون کے تحت گرفتار کیا جارہا ہے۔ ایسے میں تلنگانہ جو کہ ایک نان بی جے پی ریاست ہے، وہاں طلبہ کے خلاف مقدمات درج ہونا تشویش کی بات ہے۔

ایسے میں ریاست تلنگانہ کی مسلم قیادت اور اس معاملہ کی رپورٹنگ میں اردو اخبارات کا کردار بھی مایوس کن رہا ہے۔ یہ خبر سب سے پہلے دی وئر انگلش میں 11 اکتوبر کو شائع ہوئی جس میں ان طلبہ کے بیانات کو بھی نوٹ کیا گیا، جس کے بعد مہاراشٹرا کے انقلاب اخبار نے اس خبر کو جلی حرفوں میں پہلے صفحے پر جگہ دی۔ اخبار نے سرخی لگائی کہ "تلنگانہ بھی یوپی کے نقش قدم پر، سی اے اے مخالف مظاہرین کو سمن”۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہیکہ کہ اس خبر کے منظر عام پر آنے کے دو دن بعد تلنگانہ کے اردو اخبارات نے نہ صرف اس خبر کو  لیکر کوئی تحقیق کی بلکہ اس خبر کو کوئی جگہ بھی نہیں دی۔ روزنامہ سیاست جو کہ سیاسی طور پر بہت متحرک اور مقامی سیاسی جماعتوں پر تنقید کرنے میں پیش پیش رہتا ہے اس نے بھی اس خبر کو صفحہ نمبر 6 پر سب سے نیچے کے حصے میں جگہ دی، جس میں نہ تو مقامی پولیس پر تنقید اور نہ ہی کوئی تحقیقی مواد شامل ہے۔ منصف اخبار نے بھی اپنے دوسرے صفحے پر اس خبر کو جگہ دی ۔ وہیں دوسری طرف ریاستی اردو اخبارات میں 12 اکتوبر کو نظام آباد کے ایم ایل سی ضمنی انتخابات میں  چیف منسٹر کی دختر کے کویتا کی جیت کی خبریں بڑی بڑی سرخیوں کے ساتھ کئی صفحوں پر موجود ہے۔ اس بات سے ان اخبارات کی ترجیحات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

وہیں دوسری طرف مسلم سیاسی قیادت جو مسلمانوں کی آواز کا دم بھرتے ہیں، اس مسئلہ پر مکمل خاموشی بنائے رکھے ہوئے ہیں۔ اسد الدین اویسی جو حیدر آباد کے رکن پالیمان ہیں اور دہلی میں گرفتار ہونے والے طلبہ پر آواز بھی اٹھاتے ہیں، اپنے ہی شہر میں ان طلبہ پر درج مقدمات کے خلاف خاموش ہیں، کانگریس  اور ٹی آر ایس کی مسلم قیادت بھی اس مسئلہ پر مکمل خاموش ہیں۔  

واضح رہے کہ فروری اور مارچ کے مہینے میں بھی حیدرآباد میں ہونے والے مختلف سی اے اے مخالف احتجاجات میں شرکت کرنے والوں کے خلاف حیدرآباد پولیس نے مقدمار درج کئے ہیں، اس کے علاوہ ان شرکاء پر پولیس مسلسل نظر رکھی ہوئی ہے،   حیدرآباد کے نوجوانوں کی جانب سے فلیش پروٹیسٹ کے نام سے کئی احتجاج کئے گئے اور ہر احتجاج میں پولیس کی بھاری ٹیم موجود رہتی تھی، اور ہر احتجاج میں لاٹھی چارج یا ان احتجاجیوں کو گرفتار کرکے رات بھر پولیس اسٹیشن میں رکھا جاتا تھا ۔

اس واقعہ سے کئی سوالات سامنے آرہے ہیں، کیا اب تلنگانہ میں ہونے والے تمام احتجاج میں شرکت کرنے والوں یا ان میں متحر ک افراد پر مقدمات درج ہوں گے؟ یا جن پر مقدمات درج ہوئے ہیں ان کو پھر سےچلایا جائے گا؟ اظہارخیال کی آزادی پر اب غیر بی جے پی اسٹیٹ میں بھی روک لگائی جائے گی؟ مسلم قیادت اسی طرح خاموشی اختیار کرے گی؟

تبصرہ کریں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.